پراپرٹی ڈیلر کا دو طرفہ کمیشن لینا / فلیٹ بننے سے قبل فروخت کرنا
سوال
1۔پراپرٹی ڈیلر کسی شخص کا مکان کرایہ پر دیتا ہے تو اجیر اور مستاجر دونوں سے طے کرکے کمیشن لیتا ہے تو یہ جانبین سے کمشین لینا درست ہے، اگر نہیں تو ایک جانب سے کمیشن لینا درست ہے؟
2۔ ہم کوئی بلڈنگ لانچ کرتے ہیں، اور اس کے فلیٹ ڈاؤن پیمنٹ پر فروخت کردیتے ہیں تو کیا کوئی چیز اور فلیٹ تعمیر سے قبل آگے فروخت کرنا جائز ہے؟
جواب
1۔ صورت ِ مسئولہ میں پراپرٹی ڈیلر/بروکر اگر مکان کے مالک یا کرایہ دار میں کسی ایک ترجمانی کرتے ہوئے اس کی طرف سے وکیل بنتا ہے اور خود اس کی طرف سے عقد کرتا ہے تو اس صورت میں وہ صرف اسی سے کمیشن لے سکتا ہے جس کا وہ وکیل ہو، دوسرے سے نہیں لے سکتا،تاہم اگر وہ کسی ایک کا وکیل نہ ہو بلکہ مکان کے مالک اور کرایہ دار دونوں کے درمیان رابطہ کرانے کی خدمت انجام دے اور عقد فریقین خود کریں تو اس صورت میں بروکر کے لیے دونوں سے طے کرکے کمیشن لینا جائز ہوگا۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ بروکر کے لیے بروکری کی اجرت/کمیشن لینے کے جائز ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کمیشن جانبین کی رضامندی سے بلاکسی ابہام کے رقم یا فیصد کی صورت میں متعین ہو، اور جس سے كمیشن لیا جائے اس کو معلوم بھی ہو، نیز کمیشن ایجنٹ کسی معاملے میں خودخریدار یا فروخت کرنے والا ہو تو بروکری نہ لے۔ نیز کرایہ دار اور مالک کے درمیان معاملہ کرانے میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ کمیشن صرف ایک ہی مرتبہ لینا جائز ہوگا، ہر مہینہ کے کرایہ کے ساتھ کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
“وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.”
(4 / 560، كتاب البيوع، ط: سعيد)
2۔ صورت ِ مسئولہ میں جن فلیٹوں کا ابھی تک کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ وہ صرف نقشہ کی حد تک ہیں تو ان کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز موجود نہ ہو ، معدوم ہو اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ :
- اگر فلیٹ کا کچھ نہ کچھ اسٹراکچر یعنی بنیادی ڈھانچہ بن چکا ہو تو اس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔
- فلیٹ صرف نقشہ میں ہو تو اس کو متعین قیمت میں فروخت کرنے کا وعدہ کیا جاسکتا ہے اور اس بکنگ کی مد میں ایڈوانس رقم لینا بھی جائز ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
“وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم الخ.”
(5 / 138، کتاب البیوع،فصل فی الشرائط الذی یرجع الی المعقود علیه، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
“ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لاينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحاً. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعاً بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى”.
(4/ 516، کتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطی،ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100636
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن