ایمان کا مفہوم اور حدیث متواتر
ایمان کا لغوی معنی: تصدیق کرنا
ایمان کا شریعت اسلام کی اصطلاح میں مفہوم: ہر اس بات کی تصدیق کرنا جس کا ثبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی ہو۔
کون سی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی طور پر ثابت ہیں؟
- قرآن پاک
- متواتر احادیث
- متواتر اعمال، مثلاً: فرض نمازوں کی رکعات
کیا ہر صحیح حدیث متواتر ہوتی ہے؟
نہیں، ہر صحیح حدیث متواتر نہیں ہوتی۔ بعض صحیح احادیث متواتر ہوتی ہیں، بعض متواتر نہیں ہوتی۔
کون سی حدیث متواتر ہوتی ہے؟
ہر وہ بات یا فعل متواتر ہوتا ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند صحابہ رضی اللہ عنہم نے نقل کیا ہو، پھر کئی تابعین نے صحابہ سے نقل کیا ہو اور پھر اسی طرح ہر زمانہ میں بہت سے لوگ اس کو بیان کریں تو اسے حدیث متواتر کہتے ہیں۔
قرآن کے الفاظ اور قرآن کی بہت سی آیات کی تفسیر متواتر ہے۔ اسی طرح بہت سی قولی اور فعلی احادیث بھی متواتر ہیں۔
ایمان بالغیب
ہر وہ بات جس کو ہم اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیں، اس کو ظاہر اور مشاہدہ کہتے ہیں۔ مثلاً ہم نے دیکھا کہ بادل آئے ہیں، تو اس واقعہ کی تصدیق ہم اپنے مشاہدہ کی بنا پر کرتے ہیں۔
اگر ہم کسی بات کو خود نہ دیکھیں بلکہ کسی دوسرے کی خبر کی وجہ سے اس کی تصدیق کریں، تو اس کو ایمان بالغیب کہتے ہیں۔ مثلاً ہم کمرے میں ہیں، کسی نے بتایا کہ باہر بارش ہو رہی ہے اور ہمیں بارش کے آثار بھی محسوس نہیں ہو رہے، اب اگر ہم اس کی بات مان لیں گے تو اس کو ایمان کہیں گے۔
ہم بارش کی خبر دینے والے کی بات اس وقت مانتے ہیں جب ہمیں یہ یقین ہو کہ یہ سچا آدمی ہے۔ اور اگر ہمیں اس پر شک ہو، تو ہم اس کی بات نہیں مانیں گے۔
اور اگر خبر دینے والا سچا بھی ہو اور بارش کی کوئی نشانیاں بھی دکھا دے تو پھر ہم اس کی بات کا انکار بالکل نہیں کر سکتے۔
ایمان بالغیب کی وضاحت
اس تمہیدی بات کے بعد یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر کامل یقین ہے۔ حتیٰ کہ آپ کے جانی دشمنوں کو بھی آپ کی سچائی پر یقین تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نشانیاں دکھائیں جن کی وجہ سے آپ کی ہر بات کا سچا ہونا یقینی ہوگیا۔
لہٰذا ایمان بالغیب کا مطلب یہ ہے: ہر وہ بات جس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی، ہم اسے بغیر دیکھے سچا مانتے ہیں۔ مثلاً ہم نے فرشتے نہیں دیکھے، صحابہ کرام نے بھی نہیں دیکھے، جنت و جہنم بھی نہیں دیکھی، مگر ان سب کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ ہے ایمان بالغیب۔
ایمان بالغیب کی اہمیت
سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ قرآن پاک سے ہدایت وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو متقی ہوں۔
اور متقی وہی ہوتے ہیں جو ایمان بالغیب رکھتے ہوں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کی تصدیق کرتے ہوں، اگرچہ وہ ان کے مشاہدے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
مثلاً مشاہدہ یہ ہے کہ سود سے مال میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سود مال کو گھٹا دیتا ہے۔
تو ایمان بالغیب کا تقاضہ یہ ہے: مشاہدے کا انکار ہو اور غیب کی بات کا اقرار ہو۔
کفر کا مطلب
لغوی معنی: چھپانا اور انکار کرنا
اصطلاحی معنی: دین کی کسی ایسی بات کا انکار کرنا جس کا ثبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی طور پر ثابت ہو۔
کیا دین کی کسی ایک متواتر بات کا انکار کرنے والا بھی کافر ہوجاتا ہے؟
جی بالکل۔ کیونکہ مومن وہ ہوتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مان کر اللہ کا نبی تسلیم کرے۔ اب اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا انکار کرے تو گویا وہ آپ ہی کا انکار کر رہا ہے، اور یہ کفر شمار ہوگا۔
مثلاً اگر کوئی قرآن کی کسی ایک آیت یا کسی ایک متواتر حدیث کا انکار کر دے، تو وہ کافر ہو جائے گا۔
نفاق کا مطلب
لغوی معنی: دل میں کچھ ہو اور عمل سے کچھ اور ظاہر کیا جائے۔ جیسے دل میں نفرت ہو مگر عمل سے محبت دکھائی جائے۔
اصطلاحی معنی: دل میں کفر ہو مگر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے۔ قرآن میں جہاں بھی منافقین کا ذکر ہے، وہاں اصطلاحی منافق مراد ہے۔
اگر کوئی شخص دل میں بغض رکھے مگر اظہار میں محبت کرے، تو یہ برا عمل اور گناہ تو ہے لیکن شرعی اصطلاح میں اسے "منافق" نہیں کہا جا سکتا۔
کیا ہم کسی کو منافق کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں صرف شک ہو؟
جی نہیں، کیونکہ دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے۔ اب چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے، اس لیے ہم محض گمان یا شک کی بنیاد پر کسی کو منافق نہیں کہہ سکتے، جب تک وہ دین اسلام کی کسی متواتر بات کا صریح انکار نہ کرے۔
📝 اسلامی عقائد پر مبنی ٹیسٹ
