📜 Free Quran Assessment Service
🧒 Quran Evaluation for Kids
Already enrolled your child in Quran learning? Let our certified teachers assess their recitation and Tajweed — completely FREE!
📋 What’s Included in the Assessment?
- ✅ Expert evaluation of Tajweed and pronunciation
- ✅ Detailed recitation feedback
- ✅ Free Digital Certificate
- ✅ Parental guidance on improvement
Timing: Flexible schedule
Cost: Absolutely free
Trial: No registration required for assessment
📘 Islamic Courses
📖 Quran Recitation & Nazra
Learn to read the Holy Quran fluently and correctly. Ideal for beginners and children.
📖 Quran Recitation Course – Full Details
- Part 1: Basic Qaida with Namaz
- Part 2: Hifz of Last 20 Surahs
- Part 3: Full Quran Recitation
Level Placement: Evaluation-based start
Class Time: 30 minutes/session
Free Trial: 3 days
Monthly Test: With recordings
🕌 Quran Tajweed Course
Master the correct pronunciation rules of Quran with proper Tajweed under qualified teachers.
🕌 Tajweed Course Details
Deep dive into Tajweed rules like Ikhfa, Idgham, Qalqala, etc. Weekly evaluation.
Duration: 3 months
Timing: Flexible slots
📚 Essential Islamic Knowledge
Understand basic beliefs, daily Islamic practices, Fiqh, Hadith, and more in simple language.
📚 Course Contents
Includes basic Aqeedah, Islamic History, Daily Duas, and Moral Teachings.
Duration: 6 weeks
Language: Urdu & English
📖 Enroll Now – Quran Class
ایمان کا مفہوم اور حدیث متواتر
ایمان کا لغوی معنی: تصدیق کرنا
ایمان کا شریعت اسلام کی اصطلاح میں مفہوم: ہر اس بات کی تصدیق کرنا جس کا ثبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی ہو۔
کون سی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی طور پر ثابت ہیں؟
- قرآن پاک
- متواتر احادیث
- متواتر اعمال، مثلاً: فرض نمازوں کی رکعات
کیا ہر صحیح حدیث متواتر ہوتی ہے؟
نہیں، ہر صحیح حدیث متواتر نہیں ہوتی۔ بعض صحیح احادیث متواتر ہوتی ہیں، بعض متواتر نہیں ہوتی۔
کون سی حدیث متواتر ہوتی ہے؟
ہر وہ بات یا فعل متواتر ہوتا ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند صحابہ رضی اللہ عنہم نے نقل کیا ہو، پھر کئی تابعین نے صحابہ سے نقل کیا ہو اور پھر اسی طرح ہر زمانہ میں بہت سے لوگ اس کو بیان کریں تو اسے حدیث متواتر کہتے ہیں۔
قرآن کے الفاظ اور قرآن کی بہت سی آیات کی تفسیر متواتر ہے۔ اسی طرح بہت سی قولی اور فعلی احادیث بھی متواتر ہیں۔
ایمان بالغیب
ہر وہ بات جس کو ہم اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیں، اس کو ظاہر اور مشاہدہ کہتے ہیں۔ مثلاً ہم نے دیکھا کہ بادل آئے ہیں، تو اس واقعہ کی تصدیق ہم اپنے مشاہدہ کی بنا پر کرتے ہیں۔
اگر ہم کسی بات کو خود نہ دیکھیں بلکہ کسی دوسرے کی خبر کی وجہ سے اس کی تصدیق کریں، تو اس کو ایمان بالغیب کہتے ہیں۔ مثلاً ہم کمرے میں ہیں، کسی نے بتایا کہ باہر بارش ہو رہی ہے اور ہمیں بارش کے آثار بھی محسوس نہیں ہو رہے، اب اگر ہم اس کی بات مان لیں گے تو اس کو ایمان کہیں گے۔
ہم بارش کی خبر دینے والے کی بات اس وقت مانتے ہیں جب ہمیں یہ یقین ہو کہ یہ سچا آدمی ہے۔ اور اگر ہمیں اس پر شک ہو، تو ہم اس کی بات نہیں مانیں گے۔
اور اگر خبر دینے والا سچا بھی ہو اور بارش کی کوئی نشانیاں بھی دکھا دے تو پھر ہم اس کی بات کا انکار بالکل نہیں کر سکتے۔
ایمان بالغیب کی وضاحت
اس تمہیدی بات کے بعد یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر کامل یقین ہے۔ حتیٰ کہ آپ کے جانی دشمنوں کو بھی آپ کی سچائی پر یقین تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نشانیاں دکھائیں جن کی وجہ سے آپ کی ہر بات کا سچا ہونا یقینی ہوگیا۔
لہٰذا ایمان بالغیب کا مطلب یہ ہے: ہر وہ بات جس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی، ہم اسے بغیر دیکھے سچا مانتے ہیں۔ مثلاً ہم نے فرشتے نہیں دیکھے، صحابہ کرام نے بھی نہیں دیکھے، جنت و جہنم بھی نہیں دیکھی، مگر ان سب کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ ہے ایمان بالغیب۔
ایمان بالغیب کی اہمیت
سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ قرآن پاک سے ہدایت وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جو متقی ہوں۔
اور متقی وہی ہوتے ہیں جو ایمان بالغیب رکھتے ہوں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کی تصدیق کرتے ہوں، اگرچہ وہ ان کے مشاہدے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
مثلاً مشاہدہ یہ ہے کہ سود سے مال میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سود مال کو گھٹا دیتا ہے۔
تو ایمان بالغیب کا تقاضہ یہ ہے: مشاہدے کا انکار ہو اور غیب کی بات کا اقرار ہو۔
کفر کا مطلب
لغوی معنی: چھپانا اور انکار کرنا
اصطلاحی معنی: دین کی کسی ایسی بات کا انکار کرنا جس کا ثبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی طور پر ثابت ہو۔
کیا دین کی کسی ایک متواتر بات کا انکار کرنے والا بھی کافر ہوجاتا ہے؟
جی بالکل۔ کیونکہ مومن وہ ہوتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مان کر اللہ کا نبی تسلیم کرے۔ اب اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا انکار کرے تو گویا وہ آپ ہی کا انکار کر رہا ہے، اور یہ کفر شمار ہوگا۔
مثلاً اگر کوئی قرآن کی کسی ایک آیت یا کسی ایک متواتر حدیث کا انکار کر دے، تو وہ کافر ہو جائے گا۔
نفاق کا مطلب
لغوی معنی: دل میں کچھ ہو اور عمل سے کچھ اور ظاہر کیا جائے۔ جیسے دل میں نفرت ہو مگر عمل سے محبت دکھائی جائے۔
اصطلاحی معنی: دل میں کفر ہو مگر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے۔ قرآن میں جہاں بھی منافقین کا ذکر ہے، وہاں اصطلاحی منافق مراد ہے۔
اگر کوئی شخص دل میں بغض رکھے مگر اظہار میں محبت کرے، تو یہ برا عمل اور گناہ تو ہے لیکن شرعی اصطلاح میں اسے "منافق" نہیں کہا جا سکتا۔
کیا ہم کسی کو منافق کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں صرف شک ہو؟
جی نہیں، کیونکہ دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے۔ اب چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے، اس لیے ہم محض گمان یا شک کی بنیاد پر کسی کو منافق نہیں کہہ سکتے، جب تک وہ دین اسلام کی کسی متواتر بات کا صریح انکار نہ کرے۔
📝 اسلامی عقائد پر مبنی ٹیسٹ
👇 اسلامی عقائد کے اسباق
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مفہوم
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان دل سے اس بات کی تصدیق کرے اور زبان سے گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اس لیے کہ سچی عبادت کا مستحق وہی ہستی ہو سکتی ہے جو کامل ذات اور صفات کی مالک ہو، اور ایسی صفات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات میں پائی جاتی ہیں۔ ان صفات کا کوئی شریک نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے، اسی لیے مسلمان اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کر سکتا۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کوئی اُس جیسا نہیں، توحید کہلاتا ہے۔ اور توحید پر ایمان ہی اسلام کی بنیاد ہے۔ اگر کسی مسلمان کی توحید کمزور ہو جائے تو اس کا ایمان بھی کمزور ہو جاتا ہے۔
لہٰذا، توحید کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک مسلمان توحید کا مفہوم بخوبی سمجھے۔ اس سبق میں ہم توحید کے اصل مفہوم کو جاننے کی کوشش کریں گے۔
لغوی معنی: توحید کا لغوی مطلب ہے کسی کو ایک ماننا، یعنی یہ یقین رکھنا کہ اس جیسا کوئی نہیں ہے۔
اصطلاحی معنی: شریعت کی اصطلاح میں توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں یکتا ہے، اور اس جیسا کوئی نہیں۔
قرآن پاک کی بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے اعتبار سے توحید کو واضح کیا گیا ہے۔
سورہ اخلاص کا ترجمہ:
کہہ دیجئے: وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے۔
مختصر مفہوم: سورہ اخلاص میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت، بے نیازی اور بے مثال ہونے کو جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ سورت توحید کی سب سے جامع تعریف پیش کرتی ہے۔
📖 توحید سے متعلق مزید قرآنی آیات دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں
ذات: ذات کا مطلب ہوتا ہے کسی کی شخصیت۔ جیسے ایک انسان ہے زید، تو اس کا جسم ایک "ذات" ہے، اور اس کی صفات جیسے دیکھنا، سننا، سمجھنا — یہ سب اس کی صفات کہلاتی ہیں۔
توحید فی الذات: اللہ تعالیٰ کی توحید ذات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جیسی کوئی اور ذات نہیں ہے۔
توحید فی الصفات: اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسی صفات اللہ تعالیٰ کی ہیں، ویسی صفات کسی اور میں نہ تھیں، نہ ہیں، اور نہ ہو سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات کا تعارف خود قرآن میں کروایا ہے۔ ہم اللہ کو ویسا ہی مانتے ہیں جیسا اس نے خود اپنا تعارف کروایا۔ ہماری عقل محدود ہے، اس لیے ہم اس سے بڑھ کر کچھ نہیں جان سکتے۔
📌 مزید تفصیل اگلے نکات میں پیش کی جائے گی۔
توحید فی الذات سے متعلق ان بنیادی باتوں پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے:
- 1️⃣ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ سے موجود ہے۔
قرآن پاک میں فرمایا گیا: "هو الأول" — یعنی وہ سب سے پہلا ہے، ہمیشہ سے موجود ہے۔ - 2️⃣ اللہ تعالیٰ کسی سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ سے ہیں۔
قرآن میں ہے: "لم یولد" — یعنی اللہ تعالیٰ پیدا نہیں کیے گئے۔ - 3️⃣ اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہیں گے۔
قرآن میں فرمایا: "الآخر" — یعنی وہی سب کے بعد باقی رہے گا۔ - 4️⃣ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے۔
قرآن پاک میں آیا: "سبحان الله" — یعنی اللہ ہر نقص، کمی اور کمزوری سے پاک ہے۔ - 5️⃣ اللہ تعالیٰ کو کسی کی ضرورت نہیں ہے۔
قرآن میں فرمایا گیا: "الله الصمد" — یعنی وہ بے نیاز ہے، کسی چیز کا محتاج نہیں۔ - 6️⃣ اس کی ذات کی حقیقت کوئی نہیں جان سکتا۔
اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا، اور مخلوق ہمیشہ محدود ہوتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات لا محدود ہے۔ اس لیے کوئی مخلوق اس کی حقیقت کا مکمل ادراک نہیں کر سکتی۔
قرآن میں فرمایا: "لا تُدرِكُهُ الأبصار" — یعنی نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں۔
البتہ، اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور پہچان اتنی ضرور کروائی ہے جو اس کی عبادت کے لیے کافی ہے، اور یہ تعارف اس نے اپنے نبیوں علیہم السلام کے ذریعے عطا کیا۔
یہ تمام نکات توحید فی الذات کا صحیح اور مضبوط فہم حاصل کرنے کے لیے بنیادی ہیں۔
جس طرح اللہ تعالی کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں، اسی طرح اللہ تعالی کی صفات جیسی کوئی صفات نہیں ہیں۔ اللہ تعالی کی صفات سے متعلق چند بنیادی عقائد درج ذیل ہیں:
- اللہ تعالی کی تمام صفات ہمیشہ سے موجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔
- اللہ تعالی اپنی کسی بھی صفت میں کسی کے محتاج نہیں ہیں، مثلاً الرزاق – یعنی رزق دینے میں کسی فرشتے یا سبب کے محتاج نہیں۔
- اللہ تعالی کی ہر صفت لا محدود ہے، جیسے رزق کے لا محدود خزانے۔
- اللہ تعالی جیسی کوئی بھی صفت کسی اور میں نہیں ہوسکتی۔
- اللہ تعالی کے علاوہ جو بھی صفات کسی میں ہیں، وہ اللہ تعالی کی عطا کردہ ہیں۔
چند اہم صفات باری تعالی:
1۔ الخالق: اللہ تعالی ہر چیز کو عدم سے وجود میں لاتے ہیں۔ جیسے آسمان کو پیدا کرنا۔ روئی سے کپڑا بنانا خلق نہیں کہلاتا۔ اللہ تعالی فوری بھی پیدا کر سکتے ہیں جیسے "کُن فیکون" اور بتدریج بھی جیسے زمین و آسمان کو 6 دن میں پیدا فرمایا۔
2۔ الحکیم: اللہ تعالی ہر کام حکمت سے کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ حکمت ہمیں بتا دیتے ہیں، بعض اوقات نہیں۔ مثلاً زمین و آسمان کو 6 دن میں پیدا کرنا۔
3۔ الحی: اللہ تعالی خود بخود زندہ ہیں۔ ان کی حیات کسی پر موقوف نہیں۔
جس طرح اللہ تعالی کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں، اسی طرح اللہ تعالی کی صفات جیسی کوئی صفات نہیں ہیں۔ اللہ تعالی کی صفات سے متعلق چند بنیادی عقائد درج ذیل ہیں:
- اللہ تعالی کی تمام صفات ہمیشہ سے موجود ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔
- اللہ تعالی اپنی کسی بھی صفت میں کسی کے محتاج نہیں ہیں، مثلاً الرزاق – یعنی رزق دینے میں کسی فرشتے یا سبب کے محتاج نہیں۔
- اللہ تعالی کی ہر صفت لا محدود ہے، جیسے رزق کے لا محدود خزانے۔
- اللہ تعالی جیسی کوئی بھی صفت کسی اور میں نہیں ہوسکتی۔
- اللہ تعالی کے علاوہ جو بھی صفات کسی میں ہیں، وہ اللہ تعالی کی عطا کردہ ہیں۔
چند اہم صفات باری تعالی:
1۔ الخالق: اللہ تعالی ہر چیز کو عدم سے وجود میں لاتے ہیں۔ جیسے آسمان کو پیدا کرنا۔ روئی سے کپڑا بنانا خلق نہیں کہلاتا۔ اللہ تعالی فوری بھی پیدا کر سکتے ہیں جیسے "کُن فیکون" اور بتدریج بھی جیسے زمین و آسمان کو 6 دن میں پیدا فرمایا۔
2۔ الحکیم: اللہ تعالی ہر کام حکمت سے کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ حکمت ہمیں بتا دیتے ہیں، بعض اوقات نہیں۔ مثلاً زمین و آسمان کو 6 دن میں پیدا کرنا۔
3۔ الحی: اللہ تعالی خود بخود زندہ ہیں۔ ان کی حیات کسی پر موقوف نہیں۔
جب ایک مسلمان کا عقیدہ توحید درست ہوتا ہے تو اس میں درج ذیل صفات کا حامل ہونا چاہئے:
- توکل: ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنا۔
- صرف اللہ سے امید اور اللہ ہی کا ڈر: نہ کسی اور سے امید رکھنا اور نہ کسی غیر اللہ سے ڈرنا۔
- اللہ کی محبت سب سے بڑھ کر: دل میں سب سے زیادہ محبت اللہ تعالی کی ہونی چاہئے۔
- ہر چیز کی نسبت اللہ کی طرف: جب کچھ ہوتا نظر آئے تو سمجھنا کہ یہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔

Sign in or register
to save your favourite homes and more
Reset password
Enter your email address and we will send you a link to change your password.